صرف مشورہ
مشورہ:۔ منیر احمد صاحب ! آپ کا خط شائع کئے بغیر جواب دے رہا ہوں۔ مثل مشہور ہے ”جیسا دیس ویسا بھیس“ اور ”کوا چلا ہنس کی چال نہ کوا رہا نہ ہنس“۔ تو محترم !آپ جس ملک اور جس معاشرے کے فرد ہیں وہاں ”محبت“ جیسی کسی چیز کا وجود تسلیم نہیں کیا جاتا اور پھر ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے۔ تعلیم پر توجہ دیجئے۔ کچھ بن جایئے۔ محبت اور شادی کے لئے تو ساری عمر پڑی ہے ابھی سے آپ اس روگ کو کیوں پال رہے ہیں ”اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا“۔
موت کا خدشہ
میں ایم ایس سی کا طالب علم ہوں چند مہینوں سے عجیب الجھن میں پھنسا ہوا ہوں۔ میں تین چار مرتبہ خواب میں صبح کی اذان کے وقت اپنی بارات کو کسی نامعلوم مقام کی طرف جاتے دیکھ چکا ہوں، بزرگوں سے پوچھا تو انہوں نے میری موت کا خدشہ ظاہر کیا۔ اب میں بیمار رہنے لگا ہوں حتیٰ کہ میں نے وصیت نامہ لکھ کر جیب میں رکھ چھوڑا ہے اللہ کے واسطے مجھے اس خوف سے نجات دلائیں۔(ایک طالبعلم)
مشورہ:۔ محترم طالبعلم صاحب! جن بزرگوں سے آپ نے خواب کا ذکر کیا ہے غالباً وہ اس دور کی پیداوار ہیں جب بلی راستہ کاٹ جاتی تھی تو وہ واپس گھر پلٹ آتے تھے کہ آج کام نہ ہو گا یا اگر زکام کے مارے چھینکوں سے براحال ہو رہا ہوتا تو فرماتے کہ بھئی کوئی یاد کر رہا ہے حالانکہ یاد تو زکام کے جراثیم کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ کا خواب لاشعور میں چھپی ہوئی شادی کی آرزو کا اظہار ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ آپ نے خواہ مخواہ دل میں وہم ڈال لیا ہے۔ اس خام خیال کو دل سے نکال ڈالئے ورنہ یہ مسلسل Auto Suffestion آپ کو واقعی بیمار کر ڈالے گا۔
شوہر کی چاہت
میری شادی کو صرف ایک سال ہوا ہے۔ شادی کے تیسرے دن میرے شوہر نے انکشاف کیا کہ ان کی توجہ ایک اور لڑکی کی طرف بھی ہے میں خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی۔ ایک دن میرے شوہر مجھ سے کہنے لگے، جی چاہتا ہے کہ تمہارا نام بھی اسی کے نام پر رکھ دوں۔ وہ مجھ سے محبت بھی کرتے ہیں بلکہ کپڑوں کو استری بھی کر دیتے ہیں آپ بتایئے میں کیا کروں؟(نجمہ سلطانہ)
مشورہ:۔محترمہ! آپ کے شوہر کو آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ آپ ان کی تیمار داری کر سکتی ہیں۔ اکثر مرد شادی سے پہلے اس قسم کے روگ میں مبتلا ہو جاتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنی بیوی کو نہیں چاہتے۔ اب یہ آپ کا فرض ہے کہ ان کے دل سے ماضی کا خیال بھلا دیں۔ اپنے پیار، اپنے حسن سلوک سے انہیں اتنا متاثر کریں کہ وہ آپ ہی کو سب کچھ سمجھنے لگیں۔ انہیں اپنا محتاج بنا لیجئے۔ ان کی چیزیں ان کے کپڑے، ان کی دوسری ضروریات کا خود خیال رکھئے یہاں تک کہ وہ صبح اٹھ کر ٹوتھ برش تک کے لئے آپ کے محتاج ہو جائیں، میرا مطلب یہ نہیں کہ ان کا ٹوتھ برش چھپا دیجئے بلکہ خود دیجئے۔ انکی ہر ضرورت کا خیال رکھئے۔ اس طرح آہستہ آہستہ وہ اپنے ہر کام میں آپکے محتاج ہو جائیں گے اور آپ ان کے لئے ایک ”لازم“ حیثیت اختیار کر لیں گی صرف اسی طرح وہ اپنے ماضی کو بھلا سکیں گے.... یاد رکھئے! مرد کو بھی پیار اور محبت کی اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے کہ جتنی عورت کو۔
والد صاحب میری شادی نہیں کرتے
میری عمر 26سال ہے میں میٹرک پاس ہوں پانچ سال کی عمر میں والدہ فوت ہو گئیں بعد میں والد صاحب نے دو شادیاں کیں لیکن انہیں طلاق دیدی۔ والد صاحب بڑے سخت گیر ہیں۔ میری ایک بہن بھی ہے جس کا رشتہ خود میں نے برادری میں کر دیا لیکن اسے طلاق ہو گئی۔ میں محنت کر کے روزی کماتا ہوں اور والد صاحب کی بھی مالی امداد کرتا ہوں۔ چاہتا ہوں کہ میرا گھر آباد ہو جائے لیکن والد صاحب برادری سے ملنے نہیں دیتے اور نہ کہیں میری نسبت طے کرتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ میری خواہشات کو کچلنا چاہتے ہیں۔ اب میں کروں تو کیا کروں؟ (ن م س)
مشورہ:۔ محترم ن م س صاحب! ہر انسان کے دو فرض ہوتے ہیں ایک فرض اس کے اہل خانہ سے متعلق ہے اور دوسرا اپنی ذاتی زندگی سے۔ آپ کو ان دونوں فرائض کو پورا کرنا ہے۔ اب تک آپ اپنے اہل خانہ کے فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں۔ جس محنت اور مشقت سے آپ نے کام کیا ہے اس میں آپ کا احسان شامل نہیں ہے بلکہ یہ آپ کا اخلاقی فرض تھا۔ اب آپکے والد کا اخلاقی فرض یہی ہونا چاہئے کہ وہ آپ کیلئے مناسب رشتہ کی تلاش کریں۔ چند نفسیاتی وجوہ کی بنا پر وہ ایسا نہیں کر رہے۔ ایسی صورت میں اگر آپ خود کوئی قدم اٹھائیں تو وہ نہ برا ہو گا اور نہ غیر اخلاقی۔ جب آپ کا یہ خیال ہے کہ آپکے والد مستقبل قریب میں آپ کی شادی پر توجہ نہیں دینگے تو آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ آپ اس فرض کو خود سرانجام دیں۔
سسرال سے تنگ ہوں
میں ایک کھاتے پیتے گھرانے کا فرد ہوں۔ میں جن دنوں کالج میں زیر تعلیم تھا میرے گھر میں والد کی غیر موجودگی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کے متعلق میرا اپنے والد کو آگاہ کرنا ضروری تھا۔ والدصاحب نے واقعہ سن کر میری والدہ اور ہمشیرہ کو گھر سے نکل جانے کا حکم دیدیا۔ شام کو والدہ نے میری منت سماجت کر کے کہا کہ میں اس واقعے کی ذمہ داری اپنے سر لے لوں۔ میں نے ایسا ہی کیا اورگھر چھوڑ کر ملازمت اختیار کرلی۔ تنہائی سے گھبرا کر ایک جگہ نکاح کر لیا۔ ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی۔ میں نے نکاح کے وقت نہ کوئی شرط لکھوائی اور نہ ان سے جہیز وغیرہ کا مطالبہ کیا۔ اب سسرال والوں کے نت نئے مطالبات سے میں تنگ آگیا ہوں۔ کبھی نقدی کی فرمائش کر دیتے ہیں اور کبھی قیمتی چیزوں کی۔ خدارا اس سلسلے میں میری مدد کریں۔
مشورہ:۔محترم !کاش آپ اس واقعے کی طرف بھی ہلکا سا اشارہ کردیتے تو مجھے آپ کی قربانی کا پس منظر سمجھنے میں مدد ملتی۔ جہاں تک والدین کا تعلق ہے وقت آنے پر آپ کے تعلقات ان سے استوار ہو ہی جائیں گے۔آپ کے والد بہرصورت وقت پر نرم ضرور پڑ جائیں گے۔ سردست آپ کا مسئلہ آپ کے سسرال سے متعلق ہے۔ اگر آپ کے سسرال والے اس غلط فہمی میں ہیں کہ وہ اپنے داماد سے اپنے اخراجات کی تکمیل کروائیں گے تو آپ انہیں قطعی طور پر اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیں اگر وہ رشتہ قطع کرنا چاہیں تو کر دیں اگر وہ رخصتی کر دیں تو اپنی بیوی کو ہرگز الزام نہ دیں کیونکہ وہ تو ان معاملات سے قطعی بے خبر ہو گی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں